سنا یوسف، چترال کی وہ خوبصورت اور باہمت لڑکی، جو اپنی مسکراہٹ، اپنے انداز، اور اپنی بے ساختہ ویڈیوز سے لاکھوں دلوں پر راج کرتی تھی۔ اُس کی عمر صرف 17 سال تھی، مگر اس کم عمری میں ہی اُس نے وہ مقام حاصل کر لیا تھا جس کا خواب بڑے بڑے فنکار دیکھتے ہیں۔ وہ ٹک ٹاک کی دنیا میں تیزی سے اُبھرنے والا نام تھی—ایک ایسی آواز جو بولتی کم تھی، مگر اپنی آنکھوں اور انداز سے بہت کچھ کہہ جاتی تھی۔
سنا صرف ایک فنکار نہیں تھی، وہ ایک سوچ تھی۔ وہ اُس نوجوان نسل کی نمائندہ تھی جو سوشل میڈیا کو صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ اظہار کا ہتھیار سمجھتی ہے۔ وہ اپنے ویڈیوز کے ذریعے نہ صرف چترالی ثقافت کو دنیا کے سامنے لاتی، بلکہ خواتین کے حقوق، تعلیم، اور خوداعتمادی کا پیغام بھی دیتی۔
مگر افسوس… یہ معاشرہ خواب دیکھنے والی لڑکیوں سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔
2 جون 2025، وہ دن تھا جب سنا نے اپنی زندگی کے سترہ سال مکمل کیے۔ اُس نے اپنے مداحوں کے ساتھ سالگرہ کی تصاویر شیئر کیں، کیک کاٹا، مسکرائی، اور شاید دل میں نئے خواب بسائے کہ اب وہ 18 کے قریب پہنچ رہی ہے—اب وہ اور بلند پرواز کرے گی۔
لیکن اُسی دن، اسلام آباد میں اُس کے گھر پر اُس کا کزن، عمر حیات، آیا۔ اُس نے سنا سے تنہائی میں بات کرنے کو کہا۔ گھر والوں نے سمجھا شاید کوئی ذاتی بات ہو، مگر چند لمحوں بعد دو گولیاں چلیں۔ سنا فرش پر گری، خون میں لت پت۔ اور عمر، اُس کا رشتہ دار، اُس کا قاتل بن کر وہاں سے فرار ہو گیا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق، عمر حیات بار بار سنا کو پرپوز کر رہا تھا۔ وہ اُس کی شہرت سے جلتا تھا، اُس کی “ناں” برداشت نہ کر سکا۔ اُس کے لیے سنا کا انکار، سنا کی آزادی، سنا کی شہرت—ایک ناقابلِ برداشت حقیقت بن چکی تھی۔ اُس نے وہی کیا جو اس معاشرے کے کئی مرد کرتے ہیں: “اگر میری نہ ہوئی، تو کسی کی بھی نہ ہوگی۔”